پیر 16 دسمبر 2024 - 12:30
اندھیری شام میں جلتا چراغ

حوزہ/ ایک گاؤں میں ایک چرواہا رہتا تھا جو دن کو بھیڑ، بکریوں کو صحرا میں چرانے لے جایا کرتا تھا۔ ایک دن صحرا سے واپسی پر جب وه بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کو باڑے میں لے گیا، اتنے میں ایک بھوکا بھیڑیا پہنچ گیا، جب بھوکا بھیڑیا نے باڑے کا دروازہ بند دیکھا تو وہ مایوس ہو کر واپس چلا گیا تاکہ ان بھیڑ بکریوں تک رسائی حاصل کرنے کی کوئی ترکیب سوچا جائے۔

تحریر: مولانا صادق الوعد قم ایران

حوزہ نیوز ایجنسی| ایک گاؤں میں ایک چرواہا رہتا تھا جو دن کو بھیڑ، بکریوں کو صحرا میں چرانے لے جایا کرتا تھا۔ ایک دن صحرا سے واپسی پر جب وه بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کو باڑے میں لے گیا، اتنے میں ایک بھوکا بھیڑیا پہنچ گیا، جب بھوکا بھیڑیا نے باڑے کا دروازہ بند دیکھا تو وہ مایوس ہو کر واپس چلا گیا تاکہ ان بھیڑ بکریوں تک رسائی حاصل کرنے کی کوئی ترکیب سوچا جائے۔

بھیڑیوں کی آپسی مشورے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ اس کا حل یہ ہے کہ چرواہے کے گھر کے سامنے بھیڑ، بکریوں کی آزادی کا نعرہ لگاتے ہوئے مظاہرہ کیا جائے۔ بھیڑیوں نے آزادی، آزادی کا نعرہ لگاتے ہوئے چرواہے کے گھر کے ارد گرد چکر لگانا شروع کردیے ۔ جب بھیڑ بکریوں نے اپنی آزادی اور حقوق کا دفاع کرتے بھیڑیوں کی فریاد سنی تو تمام بھیڑ بکریوں نے بھی آزادی کا نعره لگانا شروع کردیا، یوں دیکھتے ہی دیکھتے ڑیوڑ کا تالا توڑ کر سب باہر نکل آئے اور بھیڑیوں کے ساتھ ملکر آزادی کا نعره لگاتے ہوئے اپنے گھر کی چار دیواری کو گرانا شروع کر دیا یہاں تک کہ تمام دیواریں ٹوٹ گئیں اور وہ سب آزاد ہو گئے۔

بھیڑ بکریاں اس آزادی کی خوشی میں نعره لگاتے ہوئے صحرا کی طرف بھاگ گئیں اور بھیڑیا بھی ان کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔

چرواہا کبھی فریاد کرنے لگتا تھا تو کبھی ان کو روکنے کے لیے اپنی لاٹھی پھینکتے تاکہ ان کو روکا جائے لیکن اس کی تمام کوشش بیکار ہوگئی،جب بھیڑیوں نے بھیڑ، بکریوں کو ریگستان میں بغیر چرواہے کے پایا۔ وہ ایک ایسی شام تھی جو آزاد بھیڑ بکریوں کے لیے ایک اندھیری رات تھی تو اس لمحے کے انتظار میں بیٹھے بھیڑیا کے لئے گولڈن چانس تھا۔اگلے دن جب چرواہا اس ریگستان میں پہنچا جہاں بھیڑ بکریوں نے اپنی آزادی وہاں حاصل کی تھی تو اسے پھٹی ہوئی لاشوں اور خون آلود ہڈیوں کے سوا کچھ نہیں ملا۔

یہ صرف ایک کہانی نہیں بلکہ پوری دنیا خاص کر تیسری دنیا کے اکثر لوگوں کا حال ہے جو دوست نما بھیڑیوں،اور کھوکھلے نعروں کے پیچھے بھاگتے ہیں تاکہ آزادی حاصل کریں جبکہ آزادی کا نعره صرف ایک بہانہ ہے ۔ نہیں معلوم ان کھوکھلے نعروں کے تعاقب میں کتنی بستیاں صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہیں اور کتنی خون کی ندیاں بہہ چکی ہیں ،مگر ہماری آنکھیں پھر بھی نہیں کھلتی ۔ اس کی تازہ مثال سیریہ کا حالیہ واقعہ ہے ۔اس حوالے سے گزشتہ بدھ کو کیا گیا ولی امر کا خطاب ان اہم خطاب میں سے ایک تھا، جس میں آپ نے سمندر کو کوزہ میں بند کردیا، علاقائی اور عالمی تمام مسائل، خاص کر سیریہ کے موضوع پر جامع گفت و گو فرمائی۔

آپ نے اپنے خطاب میں انسانی ماسک پہنے بھیڑیوں کی خوب اور بر وقت نشان دہی کرتے ہوئے ان سب کو بے نقاب کردیا،جو دوست کے روپ میں سیریہ اور امت مسلمہ کی جڑوں کو کاٹ رہے تھے۔

خطاب کے شروع میں ولی امر مسلمین نے واضح طور پر فرمایا: سیریہ میں جو کچھ ہوا وہ امریکی،صہیونی اور سیریہ کے ایک ہمسایہ کے گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہے ۔مزید برآن کہ اس پر ہمارے پاس گواہ اور شواہد موجود ہیں ۔ولی امر کے اس ایک جملے نے یقینا بڑے بڑے برج الٹ دیئے ترکیہ اور سیریہ کے باغیوں کو بڑے مخمصے میں ڈال دیا۔

کیسے؟

جوں ہی بشار اسد کی حکومت ختم ہوگئی اسرائیل نے سیریہ کے تمام فوجی تنصیبات، ملٹری کیمپس اور بندرگاہوں پر حملہ کرکے سب کچھ راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا۔

سیریہ کے اسی فیصد فوجی طاقت ختم کردیے۔ شاید سیریہ کو دوبار اس مقام پر پہنچنے میں کئی دہائیاں لگ جائیں۔دوسری طرف ولی امر جو کچھ شام میں ہوا ہے اسے انقلاب نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کی منصوبہ سازی کا نتیجہ قرار دے دیئے۔ اب ترکیہ اور باغی گروه کے پاس اس الزام سے بچنے کے دو ہی راستے ہیں۔

پہلا آپشن :

یا تو کھلم کھلا اعلان کریں کہ ہاں ہمیں ان عالمی طاقتوں کی پشت پناہی اور آشیر باد حاصل ہے۔ یقینی بات ہے اس صورت میں وہ گروہ یا افراد جو مذہبی جذبے سے شریک ہوئے تھے وه سب پیچھے ہٹ جائیں گے،اسی طرح سیریہ سے باہر دیگر ممالک میں حامی مذہبی شدت پسند طبقہ جو اسے مذہبی رنگ دیکر فتح کی خوشیاں منا رہا ہے وہ بھی سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ جیسا ہم سوچ رہے تھے ویسا نہیں تھا بلکہ یہ بھی عالمی کھیل تھا، ہم تو عبد اللہ کی شادی میں بیگانہ بنے ہوئے تھے بلکہ اس سے پہلے سنہ 2011 کی تحریک بھی ہماری اپنی نہیں تھی وہ بھی پرایا کا کھیل تھا۔ہم تو صرف استعمال ہورہے تھے ۔اس صورت میں سیریہ کے شورشیوں اور ہمسایہ ملک کے لئے مقاومتی بلاک سے دو طرفہ تعلقات برقرار کرنا ناگزیر بن جائے گا۔

دوسرا آپشن:

ترکیہ اور باغی گروپ کے پاس دوسرا آپشن ہے اسرائیل سے جنگ کریں تاکہ اس الزام سے بچ جائیں اس صورت میں باغی اور ترکیہ کا راستہ الگ الگ ہو جائے گا کیونکہ ترکیہ عالمی طاقتوں سے ہرگز جنگ کرنا نہیں چاہئے گا ، کیونکہ ترکی ایک پارلیمانی ملک ہے، جبکہ دوسری طرف شورشیوں کی اکثریت کا تعلق سیریہ سے ہے ہی نہیں اس لئے اگر سیریہ ختم ہو جاتا ہے یا اسے نقصان پہنچ جاتا تو ان کو کوئی فرق نہیں پڑنا ہے۔

ولی امر مسلمین نے غربی، عبری اور عثمانی گٹھ جوڑ پر دلیل لاتے ہوئے فرمایا :کسی بھی ملک یا جگہے پرجب دو فریق میں لڑائی ہو جائے اور تیسرا اس میں کود پڑے یہاں تک کہ وه تمام بنیادی چیزیں جن کو حاصل کرنے میں کئی عرصہ درکار ہوتا ہے ، وہ علمی اور ریسرچ سنٹرز جو کسی بھی ملک کے لئے حیاتی ہوتے ہیں ان سب کو ختم کردے ،اسی طرح صہیونی حکومت کئی کلومیٹر سیریہ میں داخل ہوگئی اور گولان سے ملحقہ علاقوں پر قبضہ جمایا ہے جب ان چیزوں کو دیکھتے ہیں تو ہر باشعور انسان سمجھ سکتا ہے کہ یہ مصنوعی جھگڑا کس کا ایجاد کردہ ہے۔

شام میں پیش آنے والا حالیہ واقعے کے بعد استکباری قوتیں اور ان کے نوکر یہ سوچ کر خوشی کا اظہار کررہے ہیں کہ شامی حکومت کے زوال سے مزاحمتی محاذ کمزور ہو گیا ہے۔

یہ ان کی خام خیالی ہے وه مزاحمتی محاذ کی صحیح سمجھ نہیں رکھتے ،کیونکہ مزاحمت" ایک عقیدہ ہے، ایک سوچ ہے، یہ نہ صرف کمزور ہوتا ہے بلکہ دبانے سے اور مضبوط ہو جاتا ہے۔ جب دشمن کے وحشیانہ جرائم کو دیکھتے ہیں تو وہ لوگ جو شک کرتے تھے کہ مزاحمت کریں یا نہ کریں، شک سے نکل کر وه بھی ظالموں، اور جابر وں کے خلاف سینہ تان کر کھڑے ہو جاتے ہیں ۔

حزب اللہ اور حماس اس کی بہترین مثال ہے۔ ولی امر مسلمین نے اس اندھیری شام میں چراغ جلاتے ہوئے فرمایا :خدا کے فضل وکرم سے، مزاحمت کا دائرہ پورے خطے کو ماضی کے مقابلے میں وسیع پیمانے پر پھیل جائے گا۔

جو لوگ یہ سمجھتے ہیں جب مزاحمت کمزور ہوگی تو اسلامی ایران بھی کمزور ہو جائے گا وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں ان کو چاہئے کہ کم از کم مزاحمت کے مفہوم سے تو آشنائی حاصل کریں۔

ان شاءاللہ ایران مضبوط اور طاقتور ہے اور خدا کی مدد سے مزید طاقتور ہوگا۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .

مقبول ترین

تازہ ترین